1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتافریقہ

مسلح دھڑوں کے تصادم سے لیبیا کا دارالحکومت طرابلس لرز اٹھا

16 اگست 2023

لیبیا کے دارالحکومت میں موجود سب سے طاقتور دو مسلح دھڑوں کے درمیان تعلقات پھر سے کشیدہ ہو گئے ہیں۔ تیل کی دولت سے مالا مال یہ ملک گزشتہ ایک دہائی سے بدحالی کا شکار ہے۔

طرابلس میں لڑائی کے سبب فضا میں دھوئیں کے بادل
منگل کی صبح شہر کی سڑکوں پر بھاری ہتھیاروں کی آوازیں گونج رہی تھیں جبکہ شہر کے بعض حصوں کے اوپر گہرا دھواں چھا گیا تھاتصویر: Hani Amara/REUTERS

 منگل کے روز دو حریف ملیشیا دھڑوں کے درمیان جھڑپوں کی وجہ سے لیبیا کا دارالحکومت طرابلس لرز اٹھا۔ گزشتہ کچھ ماہ سے دارالحکومت میں نسبتاً سکون تھا، تاہم اس تازہ پیش رفت سے امن و سکون میں خلل پڑا ہے اور حالات کشیدہ ہو گئے۔

اقوام متحدہ کی تحقیقات کے مطابق لیبیا میں تشدد اور جنسی غلامی کے ثبوت ملے

مقامی رہائشیوں اور میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق تشدد کی ابتدا پیر کی رات کے دوران ہوئی اور یہ سلسلہ منگل تک جاری رہا۔ اطلاعات کے مطابق طرابلس شہر کے مختلف حصوں میں جھڑپیں ہوتی رہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ رواں برس شہر میں لڑائی کا یہ بدترین واقعہ ہو۔

لیبیا میں داعش کے 17 ارکان کو سزائے موت سنا دی گئی

ان جھڑپوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ابھی تک واضح نہیں ہے۔

لیبیا: پرتشدد واقعات کے سبب حریف وزیر اعظم طرابلس سے فرار ہونے پر مجبور

تازہ ترین واقعے سے متعلق مزید معلومات کیا ہیں؟

لیبیا کی وزارت دفاع سے منسلک ایک طبی یونٹ نے بتایا کہ اس نے فرنج، عین زرا اور طارق شوک اضلاع سے تین لاشیں برآمد کی ہیں۔

لیبیا: پارلیمانی چیلنج کے باوجود اقوام متحدہ عبوری وزیر اعظم کا حامی

ایمبولینس سروسز کے ترجمان اسامہ علی نے بتایا کہ تصادم میں 19 افراد زخمی ہوئے ہیں اور 26 خاندانوں کو لڑائی والے متاثرہ ضلع سے نکالا گیا ہے۔ وزارت صحت نے کہا کہ طرابلس کے بہت سے رہائشی اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔

لیبیا کے وزیر اعظم پر قاتلانہ حملہ، بال بال بچے

وزارت صحت نے اپنے ایک بیان میں متحارب فریقوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ایمبولینس اور ایمرجنسی ٹیموں کو متاثرہ علاقوں میں داخل ہونے کی اجازت دیں تاکہ قریبی اسپتالوں میں خون فراہم کیا جا سکے۔

شمالی افریقہ کے مغرب کے علاقے میں واقع تیل کی دولت سے مالا مال ملک لیبیا سن 2011 میں آمر معمر قذافی کی معزولی کے بعد سے ہی بحران کا شکار ہےتصویر: Sabri Elmhedwi/dpa/picture alliance

منگل کے روز جب اسپیشل ڈیٹرنس فورس کی جانب سے 444 بریگیڈ کے کمانڈر محمود حمزہ کو رہا کیا گیا، تو اس کے بعد جھڑپیں کم ہو گئیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے ہر دھڑے کے نامعلوم ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ حمزہ کو ایک ایسے تیسرے گروپ کے حوالے کیا گیا، جو اس لڑائی میں ملوث نہیں تھا۔

تشدد شروع ہونے کی وجہ کیا تھی؟

مقامی میڈیا کے مطابق پیر کی رات کو 444 بریگیڈ اور اسپیشل ڈیٹرنس فورس کے درمیان لڑائی شروع ہوئی تھی۔ ان دونوں گروپوں کو لیبیا کے دارالحکومت میں سب سے طاقتور مسلح دھڑوں کے طور پر جانا جاتا ہے۔

طرابلس میں 444 بریگیڈ کو وزارت داخلہ کی حمایت حاصل ہے جبکہ خصوصی ڈیٹرنس فورس دارالحکومت کے مٹیگا ہوائی اڈے کو کنٹرول کرتی ہے۔

میڈیا کی رپورٹس کے مطابق پیر کے روز اسپیشل ڈیٹرنس فورس نے مبینہ طور پر 444 بریگیڈ کے کمانڈر محمود حمزہ کو اس وقت حراست میں لے لیا، جب وہ سفر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے ایک صحافی نے بتایا کہ منگل کی صبح شہر کی سڑکوں پر بھاری ہتھیاروں کی آوازیں گونج رہی تھیں جبکہ شہر کے بعض حصوں کے اوپر گہرا دھواں چھا گیا تھا۔

لڑائی کی وجہ سے مٹیگا ہوائی اڈے پر آنے اور جانے والی پروازوں کا رخ موڑنا پڑا جبکہ طرابلس یونیورسٹی میں کلاسز کو منسوخ کر دیا گیا۔

لیبیا ایک منقسم قوم

شمالی افریقہ کے مغرب کے علاقے میں واقع تیل کی دولت سے مالا مال ملک لیبیا سن 2011 میں آمر معمر قذافی کی معزولی کے بعد سے ہی بحران کا شکار ہے۔

سن 2014 سے ہی ملک دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے اور ملک کے مشرقی اور مغربی حصوں میں مخالف حکومتیں قائم ہیں۔

اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ انتظامیہ جسے 'حکومت قومی اتحاد' کے نام سے جانا جاتا ہے، مغرب میں طرابلس میں واقع ہے اور اس کی حریف، جو ایوان نمائندگان کے نام سے معروف، مشرق میں توبروک میں قائم ہے۔

ان میں سے ہر ایک کو متعدد مقامی ملیشیا اور غیر ملکی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے اور ہر ایک نے دوسرے سے کنٹرول کو چھیننے کی بھی کوشش کی ہے۔ تاہم کئی برسوں کی لڑائی اور عدم استحکام کے بعد اب تشدد بڑی حد تک کم ہو گیا ہے۔

لیکن طرابلس میں طویل عرصے سے جاری تقسیم کی وجہ سے حالیہ برسوں میں خونریزی کے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں۔

لیبیا میں اقوام متحدہ کے سپورٹ مشن نے منگل کو ایک بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ اسے پیر کو شروع ہونے والے ''سیکورٹی کے واقعات اور پیش رفت'' پر گہری تشویش ہے اور اس کی اس پر قریبی نظر بھی ہے۔

اس نے جاری مسلح جھڑپوں کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں