1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں حیاتیاتی تنوع کی حفاظت کے لیے دس ناگزیر اقدامات

14 اپریل 2024

لائبنیز انسٹی ٹیوٹ فار بائیو ڈائیورسٹی جرمنی نے مارچ میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں 64 ماہرین کی تجاویز ’بائیو ڈائیورسٹی سائنس کے دس ناگزیر اقدامات‘ کی صورت میں شامل کی گئی ہیں۔

تصویر: LISI NIESNER/REUTERS

دنیا بھر میں فونا فلورا یعنی حیوانات و نباتات کی تعداد تیزی سے گر رہی ہے۔ کئی انواع یا تو بالکل ناپید ہو چکی ہیں یا اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسدان ماحول کے تحفظ کے ساتھ کرۂ ارض پر بسنے والے جانوروں اور پودوں کی لاکھوں انواع کی حفاظت کے لیے مسلسل سر گرم ہیں۔

ماہرین کے مطابق کسی علاقے میں بہت سی انواع کی بہتات ایک 'انشورنس‘ کی طرح ہوتی  ہے۔ اگر ایک نوع کسی وبا، بیماری، قدرتی آفت یا ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ناپید ہونے لگے تو کوئی دوسری نوع جلد کی اس کی جگہ لے لیتی ہے اور یوں اس علاقے میں حیاتیاتی تنوع برقرار رہتا ہے۔

ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق جرمنی میں پودوں اور جانوروں کی تقریبا 500 انواع کو سخت حفاظت میں رکھا گیا ہے جن میں سفید سارس، اپولو اور تتلیوں کی متعدد اقسام بھی شامل ہیں۔

لائبنیز انسٹی ٹیوٹ فار بائیو ڈائیورسٹی کی رپورٹ کیا ہے؟

مارچ 2024 کے آخری ہفتے میں لائبنیز انسٹی ٹیوٹ فار بائیو ڈائیورسٹی جرمنی نے 64 ماہرین کی تجاویز پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں 2024 میں جرمنی میں حیاتیاتی تنوع کی حفاظت کے لیے دس ناگزیر اقدامات کی وضاحت کی گئی ہے۔

لائبنیز ریسرچ نیٹ ورک بائیو ڈائیورسٹی کی یہ رپورٹ نا صرف جرمنی بلکہ یورپ بھر کے پالیسی ماہرین کو مستقبل میں حیاتیاتی تنوع کو برقرار رکھنے کے لیے مؤثر گائڈ لائنز فراہم کرتی ہے۔

اس رپورٹ میں محققین نے سائنسی حقائق کی روشنی میں جرمنی میں حیاتیاتی تنوع کی حفاظت کے لیے مستقبل کی حکمت عملی پر روشنی ڈالی ہے، جسے اسی برس خزاں میں ہونے والی اقوام متحدہ کی اگلی بائیو ڈائیورسٹی کانفرنس سے پہلے اپنایا جانا ہے۔

ماہرین کی تجاویز کیا ہیں؟

کیرسٹین تھونیکے اس تحقیق کی مرکزی مصنف ہیں جو 'پوٹسڈام انسٹی ٹیوٹ  فار کلائی میٹ امپیکٹ ریسرچ‘ جرمنی سے وابستہ ہیں اور ڈیپارٹمنٹ آف 'ارتھ سسٹم انالیسز‘ کی سربراہ ہیں۔

کیرسٹین تھونیکے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انسان کی غیر ذمہ دارانہ سرگرمیوں کے باعث ماحول اور حیاتیاتی تنوع کو پہنچنے والا نقصان 'پلینٹری باؤنڈریز‘ یا سیارے کی حدود سے تجاوز کر نے لگا ہے۔ لہذا ان بحرانوں سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔

دنیا میں کئی انواع یا تو بالکل ناپید ہو چکی ہیں یا اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیںتصویر: WA Department of Biodiversity/AFP

تھونیکے بتاتی ہیں کہ اس سے پہلے 2022 میں بھی ماہرین کی اس طرح کی تجاویز پر مبنی ایک رپورٹ شائع کی گئی تھی۔ اس کی افادیت کو دیکھتے ہوئے اس مرتبہ جرمنی اور دنیا بھر سے 52 ریسرچ انسٹی ٹیوٹس کے ماہرین نے 2024 کے دوران 'بائیو ڈائیورسٹی سائنس کے دس اہم اقدامات‘ کی صورت میں ایک نئی رپورٹ شائع کی ہے۔

اس کا اولین مقصد اقوام متحدہ کی طرف سے حیاتیاتی تنوع کی حفاظت کے لیے 22 اہداف کو حاصل کرنے کے لیے مؤثر پالیسیوں کا اطلاق کرنا ہے۔

لائبنیز انسٹی ٹیوٹ فار پلانٹ جینیٹکس اینڈ کروپ پلانٹ ریسرچ  سے وابستہ اس تحقیق کے شریک مصنف ینس فرائیٹاگ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حیاتیاتی تنوع میں کمی کے اثرات براہ راست ہماری فوڈ چین پر پڑتے ہیں کیونکہ یہ فوڈ چین ماحول کے نباتات اور حیوانات سے جڑی ہوئی ہے۔‘‘

فرائیٹاگ کے مطابق اس نئی رپورٹ میں دیگر چیزوں کے علاوہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حیاتیاتی تنوع کو ایک اہم پیداواری عنصر کے طور پر سمجھنے سے زرعی پیداوار کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔

سن 2024 میں بائیو ڈائیورسٹی سائنس کے دس اقدامات کون سے ہیں؟

’جرمن سینٹر فار انٹیگریٹیو بائیو ڈائیورسٹی ریسرچ‘ سے وابستہ محقق آلیٹا بون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ رپورٹ میں شامل دس اقدامات  ماحولیاتی تبدیلیوں کو لگام ڈالنے سے متعلق ہیں جن کے باعث حیاتیاتی تنوع تنزلی کا شکار ہے۔

اس کے علاوہ مقامی اور قومی سطح پر حیاتیاتی تنوع کی حفاظت، جنگلات اور مقامی متنوع ایکو سسٹم کا تحفظ، زراعت اور خوراک کی ترسیل کے نظام میں بہتری کے لیے اصلاحات بھی شامل کی گئیں ہیں۔

بون کے مطابق بین الاقوامی سطح پر حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے شعور و آگاہی سے متعلق ایجوکیشنل پروگرام بھی ان تجاویز کا حصہ ہیں۔

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

باربرا وارنر اکیڈیمی فار ٹیری ٹوریئل ڈیویلپمنٹ لائبنیز ایسوسی ایشن سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جرمنی میں ہر روز تقریبا 60 ہیکٹر زمین نئی تعمیرات اور ٹرانسپورٹ کے لیے الاٹ کی جا رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جرمن حکومت 'زمین کی بچت‘ کے اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں قطعا سنجیدہ نہیں ہے۔

باربرا کے مطابق تیزی سے بڑھتی تعمیرات اور انفراسٹرکچر کے باعث مٹی اپنے بنیادی کام سر انجام نہیں دے پا رہی جس سے ایکو سسٹم اور نباتات و حیوانات کے قدرتی مسکن تباہ ہو رہے ہیں۔

باربرا وارنر کہتی ہیں کہ حیاتیاتی تنوع کی حفاظت اور استحکام سیاسی ایجنڈوں اور پلاننگ لیول پر صف اول پر ہونی چاہیے۔ بائیو ڈائیورسٹی کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی، قومی، علاقائی حتی کہ میونسیپل سطح پر موثر و اجتماعی اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔

کرسٹوف شیربر لائیبنیز انسٹی ٹیوٹ سے بطور محقق وابستہ ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو  بتایا کہ زمین ایک منفرد سیارہ ہے، جس کی تمام دولت اس کے حیاتیاتی تنوع میں پوشیدہ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کو سٹاک مارکیٹس کے اتار چڑھاؤ کے بارے میں معلومات تو ہوتی ہیں مگر ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ہمارے علاقے کے کون سے فونا فلورا معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔

کرسٹوف مزید کہتے ہیں کہ اپنی اگلی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے نا صرف جرمنی بلکہ عالمی سطح پر بائیو ڈائیورسٹی سے متعلق تعلیم اور آگاہی کو عام کرنا ہو گا۔

گوئٹے مالا کی سرحد پر واقع جنگل کی بقاء کو خطرات لاحق

05:28

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں