1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران میں ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کا پتہ کیسے چلایا گیا؟

24 مارچ 2024

اقوام متحدہ کے حقائق کی تلاش کرنے والے ایک مشن نے ایران میں مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دے دی ہے۔ اس مشن کے مطابق یہ کریک ڈاؤن ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کے مترادف ہے۔

سن دو ہزار بائیس کی دوسری ششماہی میں ایران میں مھسا امینی کی پولیس کی حراست میں موت ملک گیر احتجاجی تحریک کا باعث بن گئی تھی
سن دو ہزار بائیس کی دوسری ششماہی میں ایران میں مھسا امینی کی پولیس کی حراست میں موت ملک گیر احتجاجی تحریک کا باعث بن گئی تھیتصویر: Middle East Images/picture alliance

عالمی ادارے کے اس مشن نے ایرانی خواتین کے حقوق کے لیے ملک بھر میں احتجاج کرنے والے مظاہرین کے خلاف ریاستی طاقت کے بھرپور اور 'سفاکانہ‘ استعمال سے متعلق کہا کہ یہ کریک ڈاؤن 'انسانیت کے خلاف جرائم‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔

تفتیشی مشن کی سربراہ سارہ حسینتصویر: Salvatore Di Nolfi/picture alliance/AP Photo

اس کے علاوہ یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ تہران میں ملکی حکومت کے اقدامات سے متعلق جاری کردہ کسی بین الاقوامی رپورٹ میں ایسی سخت زبان استعمال کی گئی ہے۔

اقوام متحدہ کا غیر جانبدار تفتیشی مشن

عالمی ادارے کے حقائق کی تلاش کرنے والے جس غیر جانبدار بین الاقوامی مشن نے ایران میں حکومت کی طرف سے حقوق نسواں کی ملک گیر تحریک کے خلاف اقدامات کا جائزہ لیا، اس نے اپنی رپورٹ اسی ہفتے جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے ایک باقاعدہ اجلاس میں پیش کی۔

ایرانی پارلیمانی الیکشن، کسی تبدیلی کی کوئی امید بجا ہے؟

اس رپورٹ کی ضخامت 300 صفحات سے زیادہ ہے اور اس میں بین الاقوامی ماہرین نے یہ تفصیلات بتائی ہیں کہ ایرانی حکومت نے کس کس طرح مظاہرین کے خلاف جبر و تشدد کا سفاکانہ استعمال کیا۔

حقائق کا تعین کرنے والے اس مشن کی خاتون سربراہ سارہ حسین نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ چند واقعات میں تو ایرانی حکام نے جو کچھ کیا، وہ 'انسانیت کے خلاف جرائم‘ کے زمرے میں آتا ہے۔

یو این ہیومن رائٹس کونسل کے لیے تیار کردہ رپورٹ کے مطابق ایران میں حقوق نسواں کی 'زن، زندگی، آزادی‘ نامی تحریک کے دوران سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 551 افراد مارے گئےتصویر: SalamPix/abaca/picture alliance

یورپی یونین: انسانی حقوق کا سخاروف انعام مہسا امینی کے لیے

ایران میں 22 سالہ کرد نژاد خاتون مھسا امینی کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد شروع ہونے والی ملک گیر احتجاجی تحریک کے آغاز کے دو ماہ بعد اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے اپنا یہ تفتیشی مشن نومبر 2022ء میں اس لیے تشکیل دیا تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں 'انسانی حقوق کی خراب ہوتی ہوئی صورت حال‘ کا جامع طور پر جائزہ لیا اور ملکی عوام کے خلاف ممکنہ جرائم کو دستاویزی شکل میں ریکارڈ کیا جا سکے۔

تب حالات کیسے تھے؟

جن دنوں جنیوا میں انسانی حقوق کی کونسل نے یہ مشن تشکیل دیا تھا، تب یہ عمومی شبہ پیدا ہو چکا تھا کہ ملک میں 'زن، زندگی، آزادی‘ کے موٹو کے ساتھ جاری احتجاجی تحریک کے دوران ایران حکام مظاہرین کے خلاف غیر متناسب حد تک زیادہ ریاستی طاقت استعمال کر رہے تھے۔

امینی کی موت کی خبر دینے والی خاتون صحافیوں کو قید کی سزا

اس تناظر میں تفتیشی مشن کی سربراہ سارہ حسین نے جنیوا میں عالمی ادارے کی ہیومن رائٹس کونسل کو بتایا، ''ان ریاستی کارروائیوں کے دوران جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔‘‘

مھسا امینی: ایران کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری سے پہلے کی تصویر اور انتقال سے پہلے ہسپتال میں کوما کے دوران لی گئی فوٹوتصویر: Ozan Guzelce/Demiroren Visual Media/abaca/picture alliance

بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی ماہر قانون سارہ حسین کے مطابق ایران میں اس کریک ڈاؤن کے دوران ماورائے عدالت قتل کیے گئے، تشدد اور ریپ کیا گیا، لوگ جبری طور پر غائب کر دیے گئے اور صنفی تخصیص کی بنیاد پر مظاہرین کو عتاب کا نشانہ بنانے کی مثالیں بھی دیکھنے میں آئیں۔

ان حقائق کے برعکس تہران حکومت کی طرف سے ہمیشہ اس بات کی تردید کی جاتی رہی ہے کہ حکام نے احتجاجی تحریک کے دوران مظاہرین کے خلاف طاقت کا کوئی بےجا استعمال کیا یا پھر یہ کہ مھسا امینی کی موت دوران حراست کیے جانے والے تشدد کا نتیجہ تھی۔

یورپی یونین کا سخاروف انعام، مہسا امینی کے نام

لیکن دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ حقائق کا تعین کرنے والے غیر جانبدار بین الاقوامی مشن کے مطابق مھسا امینی کو ایران کی ''اخلاقی پولیس کی حراست میں‘‘ مار مار کر ہلاک کیا گیا۔

سو سے زائد گواہوں کے بیانات

سارہ حسین نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا کہ اقوام متحدہ کے اس مشن نے اپنی رپورٹ کی تیاری کی عمل میں بہت سے مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کا معائنہ اور تجزیہ کیا۔

پولیس کی تحویل میں مھسا امینی (تصویر) کی موت ایران میں ’زن، زندگی، آزادی‘ کے نام سے ایک ملک گیر احتجاجی تحریک کی وجہ بن گئیتصویر: DW

انہوں نے بتایا، ''ہم نے حکومتی دستاویزات اور سرکاری اہلکاروں کے عوامی سطح پر دیے گئے بیانات کا بھی تجزیہ کیا اور ان کئی رپورٹوں کا بھی جائزہ لیا، جو ایران میں انسانی حقوق کی اعلیٰ کونسل نے تیار کی تھیں۔‘‘

امن کا نوبل انعام، ایران میں قید انسانی حقوق کی کارکن نرگس محمدی کے نام

بیرسٹر سارہ حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم نے اپنی حتمی رپورٹ کی تیاری سے قبل 134 عینی شاہدین کے بیانات کا تجزیہ کر کے اس کے نتائج بھی اس دستاویز میں شامل کیے اور ساتھ ہی ڈیجیٹل سوشل میڈیا اور قانونی دستاویزات سے حاصل ہونے والی معلومات کا بھی سہارا لیا۔‘‘

انہوں نے کہا، ''ہمارے مواد کی بنیاد یہی تمام ذرائع تھے۔ ہم نے بنیادی اور ثانوی ذرائع سے موصولہ اطلاعات سے نتائج اخذ کیے اور انہی کی مدد سے ہم اپنے تحقیقاتی مشن کے لیے ایک ٹھوس بنیاد مہیا کر سکے۔‘‘

ایران: اخلاقی پولیس کے مبینہ 'تشدد' سے طالبہ کوما میں

اس تفتئیشی عمل کے دوران جن گواہوں نے مشن کے سامنے بیانات دیے، ان میں سے ''بہت سے گواہان کے جسموں پر ابھی تک ایسے نشانات ہیں، جو یہ بتاتے ہیں کہ کس طرح ایرانی سکیورٹی فورسز نے ان کو ٹارگٹ کر کے ان پر فائرنگ کی۔‘‘

یہ خواتین کی آزادی و خودمختاری کا معاملہ ہے

01:05

This browser does not support the video element.

'سویلین آبادی پر منظم حملہ‘

یو این ہیومن رائٹس کونسل کے لیے تیار کردہ اس دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ ایران میں حقوق نسواں کی 'زن، زندگی، آزادی‘ نامی تحریک کے دوران سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 551 افراد مارے گئے، جن میں سے کم از کم 49 خواتین تھیں اور 68 بچے۔

ایران میں حجاب کی خلاف ورزی پر مزید سخت سزائیں اور جرمانے

اس کے علاوہ اس کریک ڈاؤن کے دوران خواتین اور بچوں کے ساتھ ساتھ نسلی اور مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو بھی خاص طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نشانہ بنایا گیا۔

سارہ حسین نے جینوا میں انسانی حقوق کی کونسل کے اجلاس کو بتایا کہ یہ تمام کارروائیاں ایرانی حکام کی طرف سے ''سویلین آبادی کے خلاف ایک منظم حملے‘‘ کا حصہ تھیں۔

اس رپورٹ میں تفتیشی مشن نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ ایرانی حکومت سیاسی مخالفین، منحرفین اور مظاہرین کو موت کی سزائین دینے کا سلسلہ بند کرے اور ان تمام شہریوں کو بھی رہا کرے، جو ان مظاہروں کے بعد سے جیلوں میں بند ہیں۔ مزید یہ کہ کریک ڈاؤن کے متاثرین کے خاندانوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بھی ختم کیا جائے۔

م م / ا ا (شبنم فان ہائن)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں